(ایجنسیز)
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم "ھیومن رائٹس واچ" نے اسرائیل کے سابق وزیراعظم ارئیل شیرون کے انتقال کے بعد اس کے جنگی جرائم کو یاد کرتے ہوئے ان جرائم کی تحقیقات نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آنجہانی شیرون نے سنہ 1982ء میں لبنان میں فلسطینیوں کے مہاجر کیمپوں"صبرا اور شاتیلا" میں بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا، جس کے بعد عالمی عدالت انصاف میں ان کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم یہ
امرافسوس کا باعث ہے کہ شیرون کی زندگی میں اس کے جنگی جرائم کی تحقیقات نہیں ہوسکی ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ سابق صہیونی وزیراعظم صرف فلسطینیوں کے قتل عام جیسے گھناؤنے جرائم ہی میں ملوث نہیں ہیں بلکہ وہ کئی دوسرے بڑے بڑے جرائم کے بھی مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ شیرون کے تمام جرائم بغیر تحقیقات کے دنیا کے سامنے رہے ہیں لیکن ان پر کسی عالمی عدالت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان جرائم میں فلسطینی
علاقوں میں یہودی بسیتوں کی تعمیر، فلسطینیوں کی املاک پر حملوں کے لیے فوج کو کھلی چھٹی دینے اور نہتے شہریوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں اذیتیں دینے جیسے سنگین جرائم شامل ہیں۔
ھیومن رائٹس واچ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ سارہ لیا ویٹسن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ شیرون کے انتقال نے عالمی اداروں کے کردار کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ افسوس کی بات صرف یہ نہیں کہ شیرون فلسطینیوں کے خلاف بدترین جنگی جرائم کے ارتکاب میں ملوث تھا اور اس کے ان جرائم کی تحقیقات نہیں کی گئیں بلکہ ہمیں اس بات پر بھی افسوس ہے کہ شیرون کے دور میں خطے میں دیر پا سامن کی جتنی مساعی ہوئی ہیں شیرون نے انہیں ناکام بنا کریہ ثابت کیا کہ وہ امن کے دشمن ہیں۔
مسزسارہ ویٹسن کا کہنا تھا کہ سنہ 1982ء میں اسرائیل کے وزیردفاع کی حیثیت سے شیرون لبنان میں فلسطینی مہاجرکیمپوں صبرا شاتیلا پر فوج کشی اور سیکڑوں فلسینیوں کو نہایت بے دردی سے قتل کرنے کا ذمہ دار تھا۔ خود اسرائیل کی ایک تحقیقاتی کمیٹی نے بھی شیرون کو قتل عام میں قصور وار قرار دیا تھا۔